Tuesday 18 November 2014

ایک ملاقات


Syed Nasir Ahmad Shahشہزاد لارنس بین المذاہب ہم آہنگی کے موضوع پر قلم اٹھانے والا باہمت دوست، میرے ہی شہر کا باسی ہے لیکن میں اسے اپنی سستی لکھوں گا کہ ہماری ملاقات نہیں رہی۔یہ پندرہ نومبر کی شام تھی، جب گوجرانوالہ پریس کلب کے سامنے کوٹ رادھا کشن کے انسانیت سوز سانحے پر بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے کام کرنے والی سماجی تنظیم پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ فاونڈیشن کی کال پر بہت ست دوست جمع تھے جن کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تھا، ان میں لکھاری بھی تھے، انسانی حقوق کے اداروں سے منسلک لوگ بھی تھے، سول سوسائٹی کے لوگ اور پریس کے نمائندے۔یہ سانحہ انتہائی دلخراش ہے۔اس کی بھرپور مذمت کے بعد بھی تشنگی رہ جاتی ہے۔ زندہ انسانوں کو جلتے بھٹے کی نظر کر دینا۔ میں تو ابھی تک حیدری روڈ کے سانحے میں دم گھٹ کر مر جانے والی چھے ماہ کی کائنات کا دکھ فراموش نہیں کر پایا کہ کم و بیش ویسے ہی حالات میں مشتعل ہجوم نے بربریت کی ایک اور داستان رقم کر دی۔ بہرحال مہربانی انسانیت کا دکھ درد رکھنے والی شخصیات کی جو پریس کلب کے سامنے جمع ہوئیں۔ ایک رسمی احتجاج ریکارڈ کروایا گیا، چند مختصر مگر جامع تقاریر، پھر مرحومین کی یاد میں موم بتیاں جلائی گئیں۔ آہ وہ لوگ جنہوں نے ان کی زندگی کی شمعیں آگ کی نذر کردیں۔شرم سے سر جھک جاتا ہے کہ ظلم کی یہ داستانیں اس محسنِ انسانیت کی غلامی کا دم بھرنے والے رقم کر رہے ہیں جس نے حقیر کیڑے مکوڑوں کو جلانے پر بھی اظہارِ افسوس کیا تھا۔یہ کیسی غلامی اور کس طرح کی محبت ہے کہ اس کے نام پر مر مٹنے والے مجبور اور مظلوم لوگوں کی جان ومال کے دشمن ہوئے پھرتے ہیں؟ہم نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کا خواب دیکھا تھا۔یہ تو کسی اور خواب کی تعبیر معلوم ہوتی ہے۔میں کچھ جذباتی ہو گیا۔ ہم ہیں ہی جذباتی قسم کے لوگ۔اسی لئے ادھر لاوڈ سپیکر یا میگا فون سے کوئی اعلان ہوتا ہے ادھر ہم دامے درمے سخنے اپنے رواداری کی دھجیاں بکھیرنے نکل پڑتے ہیں۔کیوں نہ ہو ملک ہمارا ہے، قانون ساز ادارے ہمارے ہیں، سیاسی اور مذہبی رہنما ہمارے اور ہمارے جیسے ہیں،عدلیہ اور پولیس ہماری ہے، اقلیتیں بھی تو ہماری ہیں سو ہم جیسا سلوک چاہیں ان سے روا رکھیں، کسی کو کیا تکلیف؟ہم کسی کو مسلمان کہنے کا حق دیں یا چھین لیں ہماری مرضی، فتوے ہمارے، فتویٰ ساز ہمارے۔کل جو سلوک ہندوستان میں شودروں اور دلتوں سے ہوتا تھا ، آج وہی سلوک ہماری اقلیتوں سے نہ ہوا تو ہم اپنے ہمسائیوں سے پیچھے رہ جائیں گے، وہاں شودروں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ شاید ان کا سماجی رویہ ہے مگر ہم قانونی تقاضے بھی پورے کریں گے۔معاف کیجئے گا میں ایک مرتبہ پھر جذباتی ہو گیا۔بڑی معذرت۔میں بات کر رہاتھا پریس کلب کے سامنے ہونے والے احتجاج کی۔ تو رسمی احتجاج ہو گیا، موم بتیاں جل کر بجھ گئیں۔اب لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں محوگفتگو ہیں۔ کہیں سعید اعوان اور اسرائیل ایڈووکیٹ ہیں۔ ان کے نام کے ساتھ ایڈووکیٹ نہ لکھیں تو صرف اسرائیل لکھتے ڈر لگتا ہے۔بڑی محبت کرنے والے دوست ہیں۔اچانک میری نظرایک شناسا سے چہرے پر پڑی، گویا کہیں کسی تصویر میں دیکھا ہے۔مجھے شک گزرا کہ موصوف شہزاد لارنس ہیں، وہی شہزاد لارنس جن کے نام سے چند روز قبل ’’ الفریڈ نوبل اگر آج زندہ ہوتا تو۔۔۔۔۔۔۔‘‘کے عنوان سے ایک کالم روزنامہ عوامی رنگ کی زینت بنا تھا۔میں تب سے ان کے فون نمبر کی تلاش میں تھاجو اس کالم میں مس پرنٹ تھا۔اب تو امیدبر آئی تھی ملاقات وہ بھی بالمشافہ۔میں ایک حیرت زدہ گرم جوشی کے ساتھ موصوف سے مخاطب ہوا، ان کا اسمِ گرامی پوچھنے کی جسارت کی، موصوف نے بڑی عاجزی اور انکساری سے تسلیم کیا کہ وہی شہزاد لارنس ہیں۔اب ایک دوسرے کے کالمز کے تعارف اور تعریف کا مرحلہ آگیا۔ پھر یکایک دو قہقہے اس سوگوار سی فضا میں بلند ہوئے۔ واقعہ یون تھا کہ ’’الفریڈ نوبل اگر آج زندہ ہوتا تو ۔۔۔۔۔‘‘نامی کالم میں نے ملالہ یوسف کے لئے نوبل پرائز کے اعلان کے بعد لکھا اور محترم مبشر بٹ صاحب کو ای میل کر دیا تھا جو کمپوزر کی غلطی کے باعث محترم شہزاد لارنس کے نام سے چھپ گیا۔ہم دونوں اس صورت حال سے محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔کہتے ہیں کہ انت بھلا سو بھلا، کمپوزر کی یہ غلطی ہم دونوں کی پہلی ملاقات کا باعث بن گئی۔ مجھے لگتا ہے اس پہلی ملاقات کے بعد دوسری، تیسری بلکہ بہت سی مزید ملاقاتوں کی گنجائش بن گئی ہے۔بین المذاہب ہم آہنگی جیسے حساس موضوع پر لکھنا اور کھل کر بات کرنا میڈیا کی آزادی کے اس دور میں بھی یقین کریں آسان نہیں ہے لیکن خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔شہزاد لارنس مے بڑی درست بات کہی کہ اسلام، عیسائیت یا کوئی بھی اور مذہب اپنے ماننے والوں کو ظلم و بربریت کی تعلیم نہیں دیتا۔مذہب تو باہمی محبت، احترامِ انسانیت اور رواداری کا دوسرا نام ہے۔ گوجرہ اور بادامی باغ، حیدری روڈ اور کوٹ رادھا کشن کے سانحے کسی مذہبی تعلیم کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ دراصل مذہبی تعلیم سے دوری یا کم فہمی کے عکاس ہیں۔ شہزاد لارنس کا کہنا تھا کہ یہ واقعات ہمارے سماجی رویوں کے عکاس ہیں۔ مجھے لگتا ہے شہزاد نے بالکل صحیح کہا ہے۔ ہمارے سماج میں واقعی برداشت، تحمل اور رواداری جیسی صفات مفقود ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ہمیں انسانیت کا پاس ہے نہ حیوانیت کا ڈر۔ اکیسویں صدی میں ہم لوگ حیوانیت اور انسانیت کے بارڈر پر کھڑے ہیں۔ ہمارے جذبات کی ہوائیں کبھی ہمیں حیوانیت کی طرف دھکیل دیتی ہیں اور ہم اپنے جیسے لوگوں کو تو زندہ جلاتے اور دم گھٹ کر مرجانے پر مجبور کرتے ہی ہیں، ان معصوم روحوں کی جان سے بھی کھیل جاتے ہیں جنہوں نے ابھی اس دنیا میں آنا ہوتا ہے۔ حیدری روڈ اور رادھا کشن دونوں واقعات میں یہ ظلم بھی قدرِ مشترک ہے۔ پھر جب سیلاب اور زلزلے ہمارا مقدر بنتے ہیں تو ہمارے اندر چھپی انسانیت انگڑائی لیتی ہے اورہم اپنا تن من دھن دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے وار دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ دو حدیں ہیں جن کے درمیان ہمارے سماجی رویے پنڈولم بنے رہتے ہیں یا ہو سکتا ہے ہمارا معاشرہ سماجی رویوں کے لحاظ سے انسانوں اور حیوانوں کے درمیان منقسم ہو۔ ایسا بعید از قیاس نہیں۔ ہر معاشرے میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے لیکن وہ لوگ جو خاموش اکثریت اور تماشائی ہیں ان کو کیا کہیں جو ظلم ہوتا دیکھتے ہیں مگر ظالم کو برا کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ جو کائنات کا دکھ محسوس تو کرتے ہوں گے مگر مصلحت کا لبادہ اوڑھے اس کے قاتلوں کے گلے میں پھولوں کے ہار دیکھتے ہیں اور چپ رہتے ہیں، جو شہزاد اور شمع کی یاد میں کوئی موم بتی جلانے کی ہمت نہیں کرتے۔شاید کوئی آنسو ان کی گال پر ڈھل جاتا ہو۔ وگرنہ کائنات کی سسکیاں اور شمع اور اس کے بطن کی معصوم امانت کا نوحہ ان ظالموں کو اپنے خون سے لکھنا پڑے گا

No comments:

Post a Comment