Articles in Urdu

اقلیتوں کے تحفظ کے لیے’ارلی وارننگ سسٹم‘

دنیا بھر میں قدرتی آفات سے بچاؤ یا بیماریوں کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ’ارلی وارننگ سسٹم‘ یا پیشگی انتباہ کے نظام عام طور پر استعمال ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں ان مقاصد کے ساتھ ساتھ پہلی بار اس اصطلاح کو اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس مقصد کے لیے غیر سرکاری اداروں سمیت سول سوسائٹی کے ایک نیٹ ورک نے ایک ہیلپ لائن شروع کی ہے۔
اس ہیلپ لائن کے نمبر کی تشہیر ذرائع ابلاغ سمیت جگہ جگہ چسپاں کیے جانے والے پوسٹرز میں کی گئی ہے جس میں دیے جانے والے پیغام میں شہریوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اگر کہیں ایسا ماحول بنتا دیکھیں جو اشتعال اور تنازع کا سبب بن سکتا ہو تو فوری طور پر اس ہیلپ لائن پر اطلاع کریں۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتیوں اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی آزادی اظہار رائے اور سوچ کی آزادی کے تحفظ کے لیے بننے والا نیٹ ورک ’ریٹ‘ ملک کے دس اضلاع میں کام کر رہا ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بھی ایسی ہی تنظیم ’ضلعی ترقیاتی ایسوسی ایشن تھرپارکر‘ کے سربراہ کِشن شرما نے عمر کوٹ میں بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے ہاں عموما واقعات ہو جاتے ہیں اور پھر ہم تدابیر ڈھونڈتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں شدت پسندی میں اضافہ ہورہا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس سے ممکنہ طور پر متاثرہونے والے طبقات کو تحفظ کا ماحول دیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم نے ارلی وارننگ سسٹم کا آغاز کیا تاکہ پیشگی اقدامات کیے جاسکیں۔ ہم نے اس کو سیاسی سطح پر بھی استعمال کیا ہے۔‘
کشن شرما کا دعویٰ ہے کہ ایک سال کے دوران ریت نیٹ ورک کے تحت انہوں نے دو ایسے معاملات بھی حل کروائے جن میں توہینِ مذہب کے الزامات لگنے اور تنازع پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کسی تنازع کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اُس کی روک تھام کے لیے ہم مذہبی شخصیات ، میڈیا ، بار کونسل ، سول سوسائٹی اور کمیونٹی کے ساتھ مل کر بات چیت کرتے ہیں تاکہ کسی بھی بڑے تنازع سے اس معاشرے کو بچاسکیں اور اِس سے کوئی طویل المدتی نقصان نہ ہو۔‘
عمر کوٹ میں ریٹ ہیلپ لائن کے دفتر میں داخل ہوتے ہی دیوار پر بینر لگا ہے جس پہ ضلعے کے تمام کرتا دھرتاؤں کے نام اور نمبرز واضح طور پر لکھے نظر آتے ہیں۔ ان میں علاقے کے منتخب ممبران سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں، غیر سرکاری ادارے ، وُکلاء اور میڈیا سب ہی کے نمبر درج ہیں۔
اس دفتر کی ہیلپ لائن پہ آنے والی کالز کو سُن کے تفصیلات لکھنا اور مسئلہ آگے بڑھانے کا کام محمد حفیظ سانڈ کے سر ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہنگامی صورتحال میں ہم پراجیکٹ کے سربراہ سے بات کرنے کے بجائے خود ہی ون فائیو یا مقامی حکام تک اطلاع پہنچا دیتے ہیں۔‘
عمر کوٹ کے رہائشی حمیر دار بھی اپنا مسئلہ ’ریٹ‘ کے پاس لے کر آئے۔ انھیں شکایت تھی کہ پولیس ان کے مسئلے پر کان نہیں دھر رہی جبکہ ریٹ نیٹ ورک سے مدد اور حمایت کی وجہ سے نہ صرف پولیس کاروائی پہ مجبور ہوئی بلکہ ان کو یہاں سے قانونی مدد بھی ملی ۔
دفتر کی ہیلپ لائن پہ آنے والی کالز کو سُن کے تفصیلات لکھنا اور مسئلہ آگے بڑھانے کا کام محمد حفیظ سانڈ کے سر ہے
کرشن شرما کے مطابق پاکستانی معاشرے میں اقلتیوں کے حوالے سے حساسیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں ’ریاست کے اداروں کے ذریعے ہی ہم اپنے شہریوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی اس معاملے پر حساسیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان میں اقلیتیوں کے خلاف مذہبی نوعیت کے معاملات میں عموماً قانون نافذ کرنے والے ادارے بےبس نظر آتے ہیں جیسے کہ ہمیں کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کے بہیمانہ قتل یا گوجرانوالہ میں احمدیوں کے گھروں پر حملے میں نظر آیا۔
پاکستان میں ہر چند ماہ بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ سامنے آتا ہے جس میں مذہبی اقلیتیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بغیر تحقیق و تفتیش کے توہین مذہب و رسالت کے الزام میں بلوائی خود ہی سزائیں دے دیتے ہیں۔
ایسے میں مقامی سطح پر شروع کی جانے والی ہیلپ لائن جیسی چھوٹی سی ایک کوشش اقلیتیوں کے تحفظ میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے لیکن پاکستان میں اس طرح کے اقدامات بچاؤ کے لیے تو بہت مناسب ہیں لیکن ان کے تدارک کے لیے ریاستی اداروں کی سنجیدگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزررہے ہیں



Syed Nasir Ahmad Shahعبید اللہ علیم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ
میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں
اسّی کی دہائی میں کہا گیا یہ شعرآج بھی زندہ ہے، وہی دکھ، وہی رنج، وہی درد اور وہی کرب ۔ہمارا معاشرہ آج بھی وہی داستانِ الم دہرا رہا ہے بلکہ شاید درد کے سائے زیادہ گہرے ہو گئے ہیں۔ آہ ! معاشرے کے اس المناک انحطاط کا نوحہ لکھنے کے لئے آج علیم ہم میں موجود نہیں ۔ہم نے یوں لگتا ہے کہ کہر کی مانند سرد بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے، جبھی تو ہمارے نزدیک کوئی دکھ دکھ نہیں رہا، رنج کے معانی بدل گئے ہیں،مظلوم کی آہ و بکا بے اثر ہو گئی ہے۔زاہدوں کی ریاضت بے ثمر اور علماء کا علم عمل سے محروم لگتا ہے، سیاسی رہنما بصیرت سے دور اور اکثر مذہبی رہنما سیاست کے اکھاڑے میں آدھے تیتر آدھے بٹیر بن چکے ہیں۔خدا ملتا نظر آتا ہے نہ وصال صنم سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ہمیں نہ تو بلوچوں کے مرنے کا دکھ ہے، نہ پشاور میں مرنے والے سکھوں کا رنج۔ نہ ہمیں تھر کے ہندووں کی حالتِ زار کا احساس ہے اور نہ گوجرانوالہ میں آگ اور دھوئیں کے درمیان دم توڑنے والی اس کائنات کی چیخیں ہمارے ضمیر کو بیدار کرتی ہیں جسے ہجوم کی بربریت نے زندگی کی پہلی عید بھی نہ دیکھنے دی۔رہ گئے مسیحی تو وہ کس باغ کی مولی ہیں۔ ان کے گھر جل جائیں، ان کی جائیدادیں لٹ جائیں، ان کو اینٹوں کے بھٹے میں جلا دیا جائے، ہمیں کیا۔گوجرہ، بادامی باغ، رمشہ ، آسیہ بی بی اور اب کوٹ رادھا کشن کا شہزاد مسیح اور اس کی حاملہ بیوی شمع جس کی زندگی کی شمع آگ کے شعلوں کی نذر ہو گئی۔ کیسی سفاکیت ہے، کیا حیوانیت ہے بلکہ حیوانیت سے بھی گئی گزری بربریت ہے۔میرے ہم وطنوں نے جو سب کے سب کلمہ گو تھے، ایمان کی دولت سے مالامال اور دینی حمیت سے لبریز مگر محرم کے ان ایام میں انہوں نے کیسی کربلا برپا کر دی۔ آسمان کیوں نہیں پھٹا؟ زمین کیوں شق نہیں ہوئی؟ کبھی سکھ، کبھی ہندو، کبھی شیعہ، کبھی احمدی، کبھی مسیحی اور کبھی اس رویے کی مذمت کرنے والا سلمان تاثیر۔کب تک مذہب کے نام پر خون بہانے کا یہ مذموم عمل جاری رہے گا۔ کب تک مشتعل ہجوم حیدری روڈ گوجرانوالہ اور کوٹ رادھا کشن جیسے سانحے رقم کرتے رہیں گے؟کب تک ہماری جان و مال کے رکھوالے اپنی موجودگی میں اقلیتوں کے گھر جلتے اور خون بہتے دیکھتے رہیں گے؟کب تک ہماری شدت پسندی لوگوں کو لاوڈ سپیکرز اور میگا فونز کے ذریعے ہجوم میں تبدیل کرتی رہے گی؟ہم کب یہ سوال اٹھائیں گے کہ ہجوم کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے؟ کسی بھی عالمِ دین کو آئین کی کس شق کے تحت یہ اجازت ہے کہ وہ لوگوں کے جذبات مشتعل کرے؟کس دن ایسے ننگِ انسانیت رویوں کی روک تھام کے لئے قانون حرکت میں آئے گا؟اگرقانون اندھا نہ ہو جائے تو جرم کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ چھے ماہ کی ننھی بچی کے قاتل دندناتے پھرتے ہیں، گورنر کا قاتل ہیرو بن جاتا ہے اور میرے سبز ہلالی پرچم کی سفیدی لہو لہان ہو جاتی ہے۔دکھ اس وقت عجیب صورت اختیار کر لیتا ہے جب ایسی بربریت اس مذہب کے نام پر کی جاتی ہے جو سلامتی کا مذہب ہے۔دماغ پھٹنے لگتا ہے جب یہ سب کچھ اس ہستی کے نام لیوا سر انجام دیتے ہیں جو سراپا رحمت تھی، وہ سراسر رحمت اور مجسمہء شفقت وجود، وہ انسانِ کامل جس نے ہمیشہ محبت کا درس دیاجبھی تو اپنے پرائے، مسلم غیر مسلم سب بے خطر اس کملی والے کے پاس کشاں کشاں چلے آتے تھے اور پھر وہ رحمت تھی جو چھاجوں برسا کرتی تھی۔اگر موسلا دھار بارش کی طرح برستی اس رحمت پر کسی کو شک ہے تو مکہ اور مدینہ کے اس وقت کے حالات و واقعات پڑھ لے، بد ترین بلکہ ذلیل ترین دشمن کے ساتھ میرے ہادی و رہبر نے طاقت اور قوت کی فراہمی اور فتح مندی کے باوجود کیا سلوک کیا؟ کس کس کی گردن کاٹی گئی؟ کس کس کا گھر جلایا گیا؟ کس کس کی کائنات اجاڑی گئی؟ کس کس کو نذرِ آتش کیا گیا؟کیا ان ظالم کفار نے کبھی توہینِ رسالت ۔ توہینِ قرآن اور توہینِ کعبہ نہیں کی تھی؟میں اپنی آنکھوں سے اس مجسم رحمت کی خاکِ پا چوم لوں جس نے چیونٹیوں کے جلانے سے بھی منع فرمایا تھا۔اس آقا و مطاع نے تو احترامِ انسانیت کا درس دیا تھا، باہمی رواداری کی مثالیں قائم کی تھیں۔ہماری بد بختی نہیں کہ ہم لا تثریب علیکم الیوم کا درس بھول جاتے ہیں۔ آخری حج کے تاریخی خطبہ سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔جی وہی تاریخی خطبہ جو انسانی حقوق کا پہلا مستند اورجامع منشور ہے جو کسی انسان نے دوسرے انسانوں کو دیا۔ اس اکمل و کامل وجود سے محبت کرنے والو کیا تم نے وہ آخری خطبہ نہیں پڑھا؟ کیا تم نے نجران کے عیسائیوں کو دیا گیا امان نامہ نہیں دیکھا؟کاش تم نے پڑھا ہوتا تو نہ گوجرہ اور بادامی باغ کا سانحہ ہوتا اور نہ رادھا کشن کی بربریت تمہارے نام سے منسوب ہوتی۔اس امان نامے کو غور سے پڑھیں، اس کا ایک ایک لفظ آج بھی ہمیں باہمی محبت کی لڑی میں پرو سکتا ہے۔ میرے ایک دوست نے اس کا ترجمہ فیس بک پر درج کیا ہے اس میں سے پیش کرتا ہوں۔ تاہم میرا یہ سوال پاکستان کے علماء ، حکومت اور دانشوروں پر قرض ہے کہ یہ امان نامہ عوام الناس کو پڑھانا کس کی ذمہ داری ہے؟ ترجمہ ’’تمام لوگ جو موجود ہیں یا غیر حاضر، ان کے خاندان، ان کے رسم و رواج، ان کے مال ومتاع اور متبرک مقامات تک یہ معاہدہ محیط ہے، کسی بھی پادری کو اس کے منصب سے نہیں ہٹایا جائے گا، کسی بھی راہب کو اس کی خانقاہ سے نہیں نکالا جائے گا۔ان کی سرزمین پر کوئی فوجی دستہ دراندازی نہیں کرے گا، ان پر ظلم نہ کیا جائے گا اور نہ یہ ظلم کریں گے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باطنی طالبان

مترجم: سید ناصر احمد شاہ
قوم جہاں دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہے وہیں مذہبی انتہا پسندی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

’’ہائے افسوس !وہ قوم جو اعتقادات کا مرقع مگر مذہب سے عاری ہو‘‘
’’صد افسوس! وہ قوم جو ظالم اور جابر کو ہیرو گردانتی ہو۔‘‘
سو سال پہلے خلیل جبران نے ان کلمات میں جس بد قسمت قوم کا ماتم کیا ہے ہم آج اسی قوم کی تصویر بنتے چلے جا رہے ہیں۔قاتلوں پر پھول برسانے کا عمل شاید ناکافی تھا کہ سفاکی کے ایک تازہ واقعہ میں مٹھی بھرپکے مسلمانوں نے ہمیشہ سے بڑھ کر اپنے ایمان کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے گوجرانوالہ میں توہینِ رسالت کا الزام لگاتے ہوئے احمدیوں کے ایک گھر کونذرِ آتش کر دیا، اس واقعہ میں دو معصوم بچیوں سمیت تین افراد لقمہء اجل بن گئے۔ ایک آٹھ ماہ کی بچی کی ہلاکت کے علاوہ ایک خاتون کا سات ماہ کا حمل بھی ضائع ہو گیا۔اپنی بہادری کا مزید مظاہرہ کرنے کے لئے یہ ہجوم بعد ازاں ہوا میں ہاتھ لہراتا اور خوشی سے نعرے لگاتا رہا۔ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جو قاتلوں پر فخر کرتی اور خونِ ناحق پرجشن مناتی ہے۔ 
آج پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی، عدم رواداری، تشدد اور نفرت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں شدت ،کسی بھی مذہب کی حقیقی اقدار سے کوسوں دور ،ان خطرات سے پیدا ہو رہی ہے جو اسلام کے نام پر ہمارے معاشرے میں پیدا کیے جا رہے ہیں۔لیکن ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ بلاشبہ ایسا آناًفاناً نہیں ہوا، ہماری اخلاقی پستی کے اس سفر میں ہماری مسلسل رہنمائی کا فریضہ ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت نے انجام دیا ہے لیکن ایک نام جو بہت اہمیت کا حامل ہے وہ ہے ضیاء۔
ٍٍٍٍ ضیاء الحق کی آمریت نے نہ صرف قدرتی جمہوری سیاسی عمل کو پٹری سے اتارا بلکہ ایسے بہت سے مسائل کے دروازے کھول دئیے جنہیں ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔لوگوں کی مذہب کے ساتھ شدید وابستگی کو دیکھتے ہوئے ضیاء نے اپنے اقتدار کو جواز دینے کے لئے اسلام کو کھلم کھلا استعمال کیا۔اسلام کے نام پر متشدد پالیسیاں اپنائی گئیں۔ سکولوں کے نصاب پر نظر ثانی کی گئی، میڈیا میں ’اصلاحات‘ کی گئیں،رقص اور موسیقی پر پابندی لگا دی گئی اور شرعی عدالتیں قائم کی گئیں۔اسی دوران اعلیٰ مذہبی قائدین کا ایک ایسا متشدد طبقہ پیدا کیا گیا جو حکومت کے اس اسلامی ایجنڈا پر ہاں میں ہاں ملا سکے، ’اچھے مسلمانوں‘کو نواز سکے اور برے مسلمانوں کو سزا دے سکے۔پھر بہتر ایمان لانے والوں کی ایک ایسی بے رحم دوڑ شروع ہوئی جس میں بہت سوں نے دوسروں کے ایمان جانچنے کا فریضہ سنبھال لیا، اور آخر کار یہ سلسلہ کافر سازی کا ایسا قومی پراجیکٹ بن گیا جس نے ایک کے بعد ایک گروہ کو دائرہء اسلام سے نکالنا شروع کر دیا۔
ایک منجھے ہوئے سیاسی تجزیہ نگار حسن عسکری کے مطابق’’ اسی کے عشرے کے وسط میں کئی طرح سے پاکستان میں فرقہ وارانہ چپقلش کا آغاز ہوا۔‘‘
ضیاء پاکستان میں ایک متشدد قسم کا سنی اسلام نافذ کرنے کا خواہاں تھاجو شیعہ اقلیت کو بالخصوص پسند نہیں تھا۔جیسے جیسے اقلیتی آبادی کی آزردگی بڑھتی گئی، ویسے ویسے فرقہ وارانہ چپقلش بھی بڑھتی گئی۔ اسی اثناء میں ضیاء افغان جہاد کو پاک سرزمین تک گھسیٹ لایا جس سے فرقہ وارانہ تضادات ایک ان دیکھی خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئے۔جہاں ایران نے ۱۹۷۹ کے انقلاب کے بعد شیعہ تنظیموں کو مدد فراہم کی، وہیں سنی مسلح گروہوں کی پشت پناہی کے لئے سی آئی اے کے ڈالرز اور سعودی ریالوں کا مینہہ برسایا گیا ۔اس طرح اسّی کی دہائی میں انتہائی متشدد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں فریقین کے اہم رہنماوں سمیت کئی اراکین کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم اس مذہبی عدم رواداری کا سب سے زیادہ نشانہ احمدی بنے ہیں اور تازہ ترین واقعات بھی ان شدت پسندوں کی طرف سے منظم ایذارسانی کا تسلسل ہیں ۔یہ شدت پسند احمدیوں کو نہ صرف غیر مسلم بلکہ اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔
اب جبکہ طالبان سے نجات پانے کے لئے شمالی وزیرستان میں کارروائی جاری ہے، ہماری صفوں میں موجود انتہا پسند اسلام کے نام پر قتل وغارت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں مذہبی شدت پسندی اور عدم رواداری کی جڑیں بہت گہری پیوستہ ہیں، وہاں محض فوجی کارروائی اس مسئلے کی بیخ کنی کے لئے کافی نہیں ہے۔
معروف صحافی اورتجزیہ نگار مہدی حسن کے مطابق ’’تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا تو اس سے تشدد کو ہی فروغ ملا۔‘‘ان کے مطابق پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اسلام کومسلسل کو استعمال کیا ہے جس سے عدم رواداری کو فروغ ملا ہے۔’’فوجی کارروائی اس شدت پسندی سے نبٹنے کے لئے کافی نہیں، اس کے لئے حکومت کو تمام زنجیریں کاٹتے ہوئے دلیرانہ منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔‘‘
رواداری اور ہم آہنگی جیسی اقدار کو رواج دینے کے لئے حکومت کو ریاستی مشنری کا زیادہ اور موثر استعمال کرنا ہو گا۔اس کام کے آغاز کے لئے ایک مناسب جگہ ہمارے تعلیمی ادارے ہیں ، ہمارا تعلیمی نظام ویسے بھی آج کے قابلِ قبول معیار سے بہت پیچھے ہے۔مدارس کا وسیع اور بے لگام سلسلہ انتہا پسند طبقات کو اپنے نظریات کے فروغ کے لئے آسان ترین مواقع فراہم کرتا ہے۔علاوہ ازیں سرکاری سکولوں کا عشروں پرانا اور متروک نصاب اس اہل نہیں کہ باہمی عزت اور ہم آہنگی کی اقدار کو فروغ دے سکے۔
حسن عسکری رضوی کے مطابق ’’ہمیں اپنے بچوں کو کم ازکم یہ بات ذہن نشین کروانے کی ابتدا کر دینی چاہئیے کہ غیر مسلم بھی اس ملک کا حصہ ہیں، ہمارے بچے اس حقیقت سے بھی آگاہ نہیں ہیں۔اسلام کی مثبت اقدار کو نصاب میں جگہ دی جانی چاہئیے۔‘‘ 
فوجی کارروائی سے دشمنوں کو تو تباہ وبرباد کیا جا سکتا ہے مگر نظریات تبدیل نہیں کئے جا سکتے۔ہمارے فوجی شمالی وزیرستان میں فتح تو پا لیں گے لیکن اگر ہم اپنے معاشرے میں روزافزوں شدت پسند ذہنیت کو تبدیل نہ کر سکے تو یہ فتح بے سود ہو گی۔گوجرانوالہ کے سانحہ میں بزعمِ خود پکے مسلمانوں کا ان کے خیال میں کافر وں کے قتل کے بعد خوشی منانا طالبان کے انسانیت سوز کردار سے کم تو نہیں۔ فوجی کارروائی ایسے واقعات کا تدارک نہیں کر سکتی اس کے لئے دل اور 
دماغ کی مکمل تطہیرضروری ہے۔ظاہری طالبان ا
اس دن اپنی موت آپ مر جائیں گے جس دن ہم نے باطنی طالبان کو مار دیا۔

بصد شکریہ پاکستان ٹوڈے اور محمد مطاہر علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد مطاہر علی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پولیٹیکل سائنس کے طالب علم ہیں۔ان کا ٹویٹر @MMutahirAli اور ای میل ایڈریس mutahir111@hotmail.comہے۔ضروری ہے۔ ظاہری طالبان 

**********************************************************************************************************************************
مساوی شہری
تحریر: امتیاز گل (دی نیوز)

25اگست2014
ترجمہ: سید ناصر احمد شاہ
حالیہ چند مہینوں میں پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف پر تشدد واقعات کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔گمنام دہشت پسندوں کے ہاتھوں نہ صرف پاکستان میں بسنے والے عیسائی، احمدی، سکھ اور ہندو نشانہ بنے ہیں بلکہ شیعہ اقلیت بھی اس بربریت اور عدم رواداری کا شکار ہوئی ہے۔
حالیہ واقعات میں سندھ کے ضلع عمر کوٹ میں دو ہندو بھائیوں کو اگست 2014کی 6تاریخ کو قتل کر دیا گیا۔ اسی روز ایک نوجوان سکھ تاجر کو ,جو فاٹا کے علاقے میں لڑائی کے باعث پشاور آگیا تھا، گولی مار دی گئی۔اس سے پہلے اسی سال 26جولائی کوٹوبہ ٹیک سنگھ میں گوجرہ کے مقام پر ایک احمدی کو زہر دینے کے بعد گولی مار دی گئی۔اس سے چند روز پہلے نوابشاہ میں ایک احمدی کو قتل کر دیا گیا تھا۔اس اقلیتی فرقہ پر ایک اور بہیمانہ حملہ میں دو معصوم بچیوں سمیت تین احمدی خواتین کو 27جولائی2014کو پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں جان سے مارڈالا گیا،اس واقعہ میں ایک حاملہ عورت کا سات ماہ کا حمل بھی ضائع ہو گیا، بربریت کی یہ فہرست طویل ترہوتی چلی جا رہی ہے۔
27جولائی کے اس سانحہ گوجرانوالہ کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کی توجہ اس طرف مبذول نہیں ہو سکی۔مذہبی اقلیتوں پر روزافزوں ایذارسانی آئین کے آرٹیکل 25پر ایک اہم سوالیہ نشان ہے، آئین کے اس آرٹیکل کی رو سے تما م شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور مساوی حقوق کے ملک بھی۔
اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ نیز اقلیتوں سے روا یہ سلوک ہمیں قائداعظم کی وہ تقریر یاد دلاتا ہے جو انہوں نے 5فروری 1938کو علی گڑھ یونیورسٹی کے سٹریچی ہال میں کی۔ آپ نے کہا ’’مسلم لیگ نے آپ کو مسلمانوں کے رجعت پسندطبقے سے آزاد کروا دیا ہے اور یہ رائے قائم ہو گئی ہے کہ خودغرضی کے ہتھکنڈے استعمال کرنے والے غدار ہیں۔اس نے یقیناً آپ کو مولوی اور مولانا کے ناپسندیدہ عناصر سے (حکومتِ برطانیہ ، کانگریس، رجعت پسندوں اور نام نہاد مسلمانوں کے چنگل سے بھی) آزاد کرا دیا ہے۔‘‘
اگرچہ پاکستان میں 2011سے ہر سال گیارہ اگست کو اقلیتوں کے دن کے طور پر منایا جارہا ہے لیکن یہ تقریبات اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے جگمگاتے سیاسی اکھاڑوں سے بہت دور، اقلیتوں کے ساتھ روا بربریت کی عکاس نہیں ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے یہ حالیہ واقعات قائداعظم کی ایک مشہور تقریر کی یاد تازہ کرتے ہیں جس میں انہوں نے پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلییوں سے عبادت کی آزادی نیز بلا امتیاز مساوات کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے الفاظ میں ’’آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں، آپ آزاد ہیں کہ اپنی مساجد میں جائیںیا پاکستان کی اس ریاست کے اندر کسی بھی عبادت گاہ میں جائیں۔آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، قوم یا نسل سے ہو، اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی بھی تعلق نہیں۔‘‘
تمام اقلیتیں یہ سمجھتی ہیں کہ حکومت نہ صرف ان کے تحفظ میں ناکام ہو گئی ہے بلکہ ملک بھر میں مذہب کی بنیاد پر ہونے والے تشدد پر سیاسی مصلحتوں کے پیشِ نظربرداشت اور چشم پوشی سے کام لے رہی ہے۔وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے ہلاکتوں کے حالیہ واقعات کی مذمت میں ہچکچاہٹ اورجنوری 2011میں گورنرپنجاب کی ہلاکت پر سیاستدانوں کی خاموشی اقلیتوں پرہونے والے حملوں کی مذمت کرنے میں سیاسی عدم دلچسپی کی مصدق ہے ۔
کل پاکستان ہندو حقوق تحریک کے وائس چئیر مین اشوک چند کا کہنا ہے کہ مندرجہ بالا خطرات کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں مسلسل روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ہندو اقلیت کے نمائندوں کے مطابق ان کی خواتین جنسی زیادتی، مذہب کی جبری تبدیلی اور جبری شادیوں جیسے مسائل کا نشانہ بن رہی ہیں۔علاوہ ازیں توہینِ رسالت کا کوئی الزام جس کی سزا موت ہے،کسی بھی ہندو یا اقلیتی فرد کو بے گھر کر دینے کے لئے کافی ہے۔
اقلیتوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر عالمی برادری بھی فکر مند ہے۔پاکستان نے چونکہ اقوام متحدہ کے مختلف معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں جس میں سول اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی منشور بھی شامل ہے، جس پر پاکستان نے 2010میں دستخط کئے،اس لئے اس منشور کے آرٹیکل 27کے تحت پاکستان پابند ہے کہ نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں کی آزادی کو یقینی بنائے کہ وہ اپنے مذہب کا اعلان کر سکیں اور اس پر عمل پیرا ہوسکیں، اپنی زبان کا استعمال کر سکیں اور اپنی ثقافت اپنا سکیں۔
علاوہ ازیں آئینِ پاکستان کے آرٹیکلز 20, 21,22ہر شہری کو اپنے مذہب کے اعلان، اس پر عمل اور تبلیغ اور مذہبی اداروں کے قیام کا ضامن ہیں۔ان آئینی ضمانتوں کے علاوہ بین الاقوامی آزادی کے امریکی کمیشن کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ عیسائیوں، شیعوں، سکھوں، احمدیوں اور ہندووں کے لئے مذہبی آزادی کی فضا گزشتہ اٹھارہ مہینوں میں بہت پراگندہ ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پراقلیتوں کے حقوق کے بین الاقوامی گروپ نے پاکستان کو مذہبی ایذا رسانی کی بنیاد پر دنیا بھر میں پہلے نمبرپررکھا ہے۔
نوٹ: مصنف سنٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا ای میل پتہ ہے:imtgul@gmail.com
*********************************************************************************

Source: Daily Awami Rang

No comments:

Post a Comment